ہمارے کچھ بھائیوں کو چندہ اور چندہ کرنے والوں سے الرجی ہے لیکن یہ کتنا صبر ازما اور مشکل کام ہے اس کا اندازہ صرف بڑے مدرسے کے ناظم کی اپ بیتی سے ظاہر ہوتا ہے وہ کہتے ہیں کہ چندہ کی مشکلات نہایت صبر آزما اورناقابل بیان ہے عجیب عجیب لوگوں سے سابقہ پڑتا ہے ایک تو چندے کا دروازہ رمضان المبارک کے پاک مہینے میں اس وقت کھلتا ہے جب بخل و قساوت قلبی کا معلم مہینہ بھر کے لیے زنجیروں میں جگڑ کر قید خانے میں ڈال دیا جاتا ہے اور جود و سخا اور کرم نوازی پر لگے ہوئے قفل اسی پاک مہینے میں کھلتے ہیں جب اس کے کلید بردار کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال دی جاتی ہیں ایسے میں اللہ کے نیک بندے رمضان المبارک کی برکتیں چھوڑ کر اپنے گاؤں اور شہر سے دور بڑے بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں اور انسانوں کے وسیع وعریض صحرا میں اصحاب خیر اور صاحب دل حضرات کی تلاش میں سرگرداں گلی گلی اور محلہ محلہ کی دوریاں ناپتے نظر اتے ہیں ایسے میں اگر کوئی داڑھی ٹوپی والا ہاتھوں میں بیگ لۓ مولوی نظر اگیا تو اس کو خضر راہ سمجھ کر اس کے قریب ہونا اور زبردستی ہونٹوں پر مسکراہٹ سجاتے ہوئے اس کی خیر و عافیت دریافت کرنا فریضہ جمع چند سمجھتے ہوئے اس سے قریب ہونے کی کوشش کرتے ہیں اگر وہ خوش مزاج نکلا تو دو چار لوگوں کے نام اور پتہ بتا دیتا ہے اور اگر ترش رو ہوا تو نظر انداز کرتے ہوۓاگے بڑھ جاتا ہے اور اپنے پیچھے پوچھنے والے کے لیے درد دل اور زخم بے اعتنائی چھوڑ جاتا ہے
انسانوں کے اس وسیع و عریض صحرا میں اصحاب خیر کو تلاش کرنا ایسا ہی ہے جیسے ریت کے میدان میں پانی کی جستجو اسی طرح کبھی کبھی کسی مسجد میں اعلان چسپاں ہوتا ہے کہ اج بعد نماز مغرب فلاں مسجد میں سفراء کی دعوت افطار ہے اور چندہ بھی دیا جائے گاپھر کیا ہے جنگل کی ا گ طرح یہ خبر ایک کان سے دوسرے کان تک بلکہ ایک سفیر سے دوسرے سفیر تک پہنچتی ہے اور مذکورہ مسجد میں سفراء کا ہجوم امڈ اتا ہے معمولی افطار کے بہانے وہ سیٹھ کمبخت سے بختاور بن جاتا ہے اور سینکڑوں روزہ داروں کے ثواب سمیٹ کر اپنی جھولی بھر لیتا ہے کچھ اسی طرح کا واقعہ ہمارے ناظم صاحب کے ساتھ بھی پیش ایا کسی مسجد میں اعلان دیکھا کہ اج فلاں مسجد میں دعوت افطار ہے اور ساتھ ہی چندہ تقسیم کیا جائے گا پھر کیا تھا جلدی جلدی سارے کام نمٹائے اور مغرب کی نماز سے تھوڑا پہلے مسجد مذکورمیں پہنچ گئے سفراء کا جم غفیر پہلے سے موجود تھا جوں توں کر کے بیٹھنے کی جگہ پر قبضہ کیا اور افطاری کے انتظار میں بیٹھ گئے وقت افطار کسی کے ہاتھ کھجور لگی کسی کے ہاتھ پانی تو کسی کے ہاتھ کھجور اور پانی کی حسرت ، اعلان ہوا کہ چندا بعد نماز تراویح دیا جائے گا چندہ کرنے والے اکثر علماء ہوتے ہیں اور اکثر حالت سفر میں ہوتے ہیں جہاں فرض نماز میں بھی قصر کی گنجائش ہوتی ہے چہ جائے کہ سنن و نوافل اب عشاء کا انتظار شروع ہوا، نماز عشاء مکمل ہوئی پھر تراویح کا دور چلا تو امام صاحب نے تین پارے پڑھ ڈالے تراویح کے بعد چائے نوشی کا سلسلہ جاری ہوا اس کے بعد ایک صاحب نے تخم تمر ہندی یعنی املی کے بیج سب کے سامنے الٹ دیے اور کہا گیا کہ ختم خواجگان کے بعد چندہ دیا جائے گا یہ سلسلہ تقریبا تین بجے شب تک جاری رہا پھر سحری لائی گئی اور سحری کے بعد سیٹھ جی تشریف لائے تو اعلان ہوا کہ جن لوگوں کا پرانا چندہ ہے وہ اپنی رسید یں جمع کرا دیں اور نئے چندے والے اپنا نام لکھا دیں ان ناموں پر اگلے سال غور کیا جائے گا ہمارے ناظم صاحب کے ساتھ اور بہت سارے حضرات اس سخت مجاہدہ اور ریاضت کے بعد مایوس واپس لوٹ ائے غالبا بہت سے لوگوں کی زبان پر ختم خواجگان کے بجائے وردگالیاں تھا اس طرح بہت ساری ذلتیں بٹور کر چندہ اکٹھا کیا جاتا ہے اور بسا اوقات صبح و شام کے وعدے پر ہفتوں ایک معمولی رقم کے لیے دوڑایا جاتا ہے مدارس کے ذمہ دار اس ذلت اور رسوائی کے باوجود ہر سال اسی مجاہدے سے گزرتے اور مدارس کا انتظام کرتے ہیں اور زندگی تمام کر دیتے ہیں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں