جمعرات، 27 مارچ، 2025

سنبھل ہے یا فلسطین؟ : یہاں الگ ہی طرح کا قانون چل رہا ہے!


مختصر_کالم

بھارت میں ایک بار پھر مذہبی آزادی پر سوالیہ نشان کھڑا ہو گیا ہے۔ سنبھل میں ایس ڈی ایم کی جانب سے الوداع جمعہ اور عید کی نماز کے لیے سخت ہدایات دی گئی ہیں کہ نہ تو سڑک پر نماز پڑھی جائے گی اور نہ ہی کسی مکان کی چھت پر، ورنہ کارروائی کی جائے گی۔ یہ ہدایت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ملک کے کئی شہروں میں کھلے عام سڑکوں پر ہولی کھیلی گئی، جہاں خود پولیس اور انتظامیہ کے افراد شریک تھے، مگر وہاں کسی کو کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ہندوستان میں ہولی، دیوالی، درگا پوجا اور دیگر تہواروں کے دوران سڑکوں پر نہ صرف بھیڑ جمع ہوتی ہے بلکہ راستے بھی بند کر دیے جاتے ہیں۔ کسی بھی مذہبی جلوس پر کوئی قدغن نہیں لگائی جاتی، لیکن جب بات مسلمانوں کی عبادات کی آتی ہے تو اچانک قانون اور "انتظامیہ" حرکت میں آ جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہندوستان کا آئین صرف ایک طبقے کے لیے بنایا گیا ہے؟ کیا یہ ملک واقعی جمہوری ہے یا مخصوص نظریات رکھنے والوں کی جاگیر بن چکا ہے؟
سنبھل کا یہ واقعہ کوئی نیا نہیں ہے، بلکہ یہ اس جاری سلسلے کا حصہ ہے جس میں مسلمانوں کو بار بار ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، ایسا لگتا ہے کہ سنبھل میں الگ ہی قانون چل رہا ہے اور وہاں کی پولیس کے جو من میں آرہا ہے وہ ہدایات جاری کر رہی ہے۔ کبھی حجاب پر پابندی، کبھی اذان کے خلاف اعتراض اور اب نماز پڑھنے کے لیے بھی شرائط اور بندشیں؟ کیا اب مسلمان اپنے گھروں میں بھی عبادت کرنے کے لیے انتظامیہ کی اجازت لیں گے؟
یہ تمام اقدامات دراصل خوف اور دباؤ پیدا کرنے کی کوشش ہیں تاکہ مسلمان خود کو دوسرے درجے کا شہری محسوس کریں۔ لیکن یہ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی قوم پر زیادہ دباؤ ڈالا گیا، اس نے مزید مضبوطی سے اپنے مذہب اور ثقافت سے جڑنے کا فیصلہ کیا۔
حکومت اور انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ ملک کے تمام شہریوں کے ساتھ مساوی سلوک کرے اور کسی بھی طبقے کو مذہبی آزادی سے محروم نہ کرے۔ اگر سڑکوں پر جلوس اور تقریبات ہو سکتی ہیں، تو نماز بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ اس طرح کے متعصبانہ احکامات سے ملک کا سیکولر ڈھانچہ کمزور ہوتا ہے اور سماج میں تفریق بڑھتی ہے، جس کا نقصان پورے ملک کو بھگتنا پڑے گا۔

از: آفتاب اظہر صدیقی
کشن گنج، بہار

27 مارچ 2025

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad

3