جمعرات، 3 اپریل، 2025

ایک شاعر سیریز:- نوجوان شاعر عباس قمر سے خصوصی گفتگو

جونپور:- شیراز ہند جونپور کا تعلق شعر و شاعری سے کافی قدیم رہا ہے اس سر زمین پر درجنوں شعراء کرام نے جنم لیا جنہوں نے شعر و شاعری کے میدان میں نمایاں مقام حاصل کیا اور جونپور کو پورے جہان میں متعارف کرایا آج بھی نئی نسلیں شعر فہمی و شعر گوئی سے نابلد نہیں ہیں زمانہ گزرنے کے بعد بھی جونپور نے شعر و شاعری کے ورثے کو محفوظ کرکے رکھے ہوئے ہے یہی وجہ ہے کہ جونپور میں آج بھی شعراء کلام پیش کرتے وقت احتیاط برتتے ہیں کہ کب کوئی شخص ردیف و قافیہ کو دیکھنے لگے، نوجوانوں کی اچھی خاصی تعداد ہے جو شعر و شاعری سے دلچسپی رکھتے ہیں انہیں میں ایک نام عباس قمر ہے جن کے اشعار آج کل سوشل میڈیا پر کافی وائرل ہو رہے ہیں اور وہ خوب سرخیاں جمع کر رہے ہیں۔

عباس قمر کا آبائی وطن جیگہاں ہے مگر اب وہ اہل خانہ کے ساتھ جونپور کے محلہ بلوا گھاٹ میں رہتے ہیں فی الحال دہلی یونیورسٹی سے گریجویشن مکمل کرنے کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے پولیٹیکل سائنس میں ڈاکٹریٹ کر رہے ہیں عید الفطر کے موقع پر وہ اپنے آبائی وطن عید کرنے پہونچے جہاں ای ٹی وی بھارت اردو نے عباس قمر سے خصوصی گفتگو کی ہے۔

عوامی خیالات اردو سے گفتگو کرتے ہوئے عباس قمر نے بتایا کہ جب تعلیم کے سلسلے سے جونپور سے دہلی جانا ہوا تو وہاں کچھ ایسے دوست بنے جو شعر و شاعری سے تعلق رکھتے تھے اور ریختہ میں نوکری کرتے تھے حالانکہ شعر سننے و شعر سمجھنے کا جو شعور تھا وہ جونپور سے ہی پیدا ہوا تھا ہمارے آبائی گاؤں جیگہاں میں رہبر جونپور و افتخار اعظمی جیسے شعراء تھے جس کی وجہ سے بچپن سے ہی ادبی ماحول ملا تھا مگر باقاعدہ ریختہ کے دوستوں سے ملاقات کے بعد ماحول ملا یہ احساس ہوا کہ میں بھی کچھ کہہ سکتا ہوں جس کے بعد سے چھوٹی چھوٹی نشستوں میں مشاعروں میں جانا ہوا۔

انہوں نے کہا کہ جب میں 6 درجے میں تھا تو جیگہاں سے جونپور آ گیا جہاں چار پانچ سال کا وقفہ گزارا تو جونپور کے شعراء کے بارے میں بچپن سے ہی بتایا گیا کسی نہ کسی طرح سے ہمارے کان میں پڑتا رہا عزاداری کے حوالے سے بھی شروعاتی شعری رجحان میرے اندر پیدا ہوا جونپور کی جو ادبی وراثت رہی اس سے میں محروم رہا مگر میری ابتدائی پرورش گاؤں سے ہوئی جہاں بڑے بڑے شعراء کے بارے میں سنتا رہا اس کے بعد دلی جانے کے بعد ریختہ کی جو سرگرمیاں رہیں اس کا میرے اوپر بہت اثر پڑا کل ملا کر ہر جگہ کا اثر میرے اوپر رہا۔

عباس قمر نے کہا کہ ریختہ نے اردو کے میدان بڑا کام کیا ہے اس کا سب سے اہم کام جو مجھے متاثر کرتی ہے آرکائی ونگ کا کام جو اس نے کیا جس کو اس زمانے میں بہت اہم مانا جاتا ہے اس کے بعد مشاعرے کے حوالے سے جشنِ ریختہ اپنے آپ میں ایک معیار ہے ریختہ نے دہلی میں جو شاعری کے میدان میں ایک ماحول بنایا جس کا اثر میرے اوپر اور میرے جیسے درجنوں کو اوپر ہوا، انہوں نے کہا کہ شاعری اور مشاعرہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں آجکل کے مشاعروں میں جن کا شعر و شاعری سے کوئی تعلق نہیں ہے ان کے آنے سے مشاعرے کی فضاء بدل گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بالکل جو شاعر ہوتا ہے اس کے اوپر موجودہ وقت کا اثر ضرور ہوتا ہے انہوں نے کہا کہ میرا ماننا ہے کہ اگر ہم کوئی خیز غلط ہوتے دیکھ رہے ہیں اور اس پر کب کشائی نہیں کرتے تو یہ غلط ہے اگر شعر بن رہا ہو تو پورے جوش و خروش کے ساتھ بولنا چاہئے، انہوں نے کہا کہ اردو زبان کی تنزلی ذمہداری ہم سب کے سر پر جاتی ہے اردو کسی ایک مذہب و ذات کی زبان نہیں ہے اردو زیادہ سے زیادہ پڑھیں اور اپنے بچوں کو پڑھائیں بھی اور اردو کے لیے راہیں ہموار کریں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad

3